اسلام آباد ( تنویر ہاشمی ) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے اپنا پہلا بجٹ برائے مالی سال 2019-20ء پیش کردیا ہے ۔ وفاقی بجٹ کا کل حجم 7036؍ ارب روپے ہے جس میں 3151؍ ارب روپے کا خسارہ ہے ، آئندہ مالی سال کیلئے وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6716؍ ارب روپے ہے ، جاری اخراجات 6192؍ ارب روپے ہوں گے اور محصولات کا ہدف 5555؍ ارب مقرر کیا گیا ہے ، ریونیو میں سے 3255؍ ارب روپے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو دیئے جائیں گے جبکہ صوبائی سرپلس کا تخمینہ 423؍ ارب روپے ہے ۔ آئندہ مالی سال کےبجٹ میں کھانے پینے کی بیشتر اشیاء مہنگی کردی گئی ہیں ، چینی، گھی، خوردنی تیل، گوشت، خشک دودھ، پنیر، کریم، منرل واٹر، مشروبات ، سی این جی ، سیمنٹ، سگریٹ، گاڑیاں، زیورات ، فلیورڈ جوسز ، سیرپ ، اسکوائشز ، چمڑے کی اشیاء ، قالین ، کھیلوں کا سامان ، آلات جراحی، اسٹیل کی راڈ ، بلٹ مہنگے ہوگئے ، سنگ مرمر کی صنعت ، مرغی، مٹن، بیف اورمچھلی کے گوشت کی سیمی پروسیسڈ اور پکی ہوئی اشیا پر 17فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز ہے جبکہ روئی پر 10؍ فیصد سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا ہے ۔ بجٹ میں کھاد، موبائل ، اینٹیں ، بیکری اشیاء، لکڑی کا فرنیچر اور ریزر سستے ہوگئے ، زرعی صارفین کیلئے بجلی سستی کردی گئی ہے جبکہ برادہ ، کاغذ کے اسکریپ ، ٹیکسٹائل مشینری کے پارٹس و آلات کی درآمد پر ڈیوٹی استثنیٰ دیدیا گیا ہے جبکہ لچکدار دھاگے ، غیر بنے کپڑے اور سولر پینل پر ڈیوٹی کم کرنے اور ریسٹورنٹ پر سیلز ٹیکس 17سے 7.5؍ فیصد کرنے کی تجویزہے ۔ گریڈ ایک سے 16تک کے سرکاری سول و فوجی ملازمین کی موجودہ بنیادی تنخواہ میں 10فیصد ، گریڈ 17سے 20تک کے سرکاری سول ملازمین کی تنخواہوں میں 5فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور گریڈ 21اور 22کی تنخواہوںمیں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ،وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں 10فیصدکمی کافیصلہ کیاگیا ، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 10؍ فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں حکومت نے مزدور کی کم سے کم اُجرت 17500؍ روپے مقرر کردی ہے ۔وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے وفاقی بجٹ پیش کیا اور اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ بیرونی خسارہ کم اور ٹیکس ریفنڈ نظام بہتر کریں گے ، ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ کا نیا نظام لیا جائے گا ،یقیناً بجٹ بناتے وقت حکومت کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح اور خوشحالی ہے، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے، تحریک انصاف نئی سوچ، نئی کمٹمنٹ اور ایک نیا پاکستان لائی ہے۔
تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے 3151؍ ارب 20؍ کروڑ روپے خسارے کیساتھ آئندہ مالی سال 2019-20ء کیلئے 7036؍ ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ، وفاقی بجٹ کا حجم گزشتہ سال کے حجم سے 30فیصد زیادہ ہے ،بجٹ وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر نے پیش کیا، بجٹ کی نمایاں خدوخال کے مطابق آمدن اخراجات ٹیکس ریونیو 5822؍ ارب روپے، جاری اخراجات 6192؍ارب روپے، ایف بی آر ٹیکس ریونیو 5555؍ ارب ، سود کی ادائیگی 2891؍ ارب روپے دیگر ٹیکسز 267؍ ارب روپے، پنشن 421؍ ارب روپے، نان ٹیکس ریونیو 894؍ ارب روپے دفاعی امور و خدمات 1152؍ ارب روپے، مجموعی ریونیو وصولی 6716؍ ارب ، گرانٹس ومنتقلی 831؍ ارب روپے، ریونیو میں صوبائی شیئرز3254؍ ارب ، سبسڈیز 271؍ ارب روپے، نیٹ ریونیو وصولی 3462؍ ارب ، سول حکومت کی فعالیت431؍ ارب، سرمایہ کی وصولیاں( نان بینک) 833؍ ارب ، تنخواہ و پنشن 79؍ ارب ، نیٹ بیرونی وصولیاں 1828؍ ارب، ہنگامی حالت کے لیے رقم 115؍ ارب، صوبوں کے سرپلس کا تخمینہ 423؍ ارب ، ترقیاتی اخراجات 843؍ ارب، نجکاری کی آمدنی 150؍ ارب ، وفاقی پی ایس ڈی پی 701؍ ارب ، نیٹ قرضے 56.6؍ ارب روپے دیگر ترقیاتی اخراجات 85؍ ارب روپے کل وسائل کا حجم 7036؍ ارب روپے ہے۔ بجٹ میں ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر اڑھائی فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ،ایک ہزار ایک سی سی سے 2ہزار سی سی تک گاڑیوں پر پانچ فیصد جبکہ 2 ہزار ایک سی سی سے زائد کی گاڑی پر ڈیوٹی ساڑھے سات فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی ،پانچ برآمدی شعبوں ٹیکسٹائل، چمڑے، قالین ، کھیلوں کا سامان اور آلات جراحی کی صنعت کیلئےسیلز ٹیکس کی زیر و ریٹڈ سہولت ختم کر کے 17فیصد سیلز ٹیکس کو بحال کر دیا گیا ،اور ٹیکسٹائل اور چمڑے کی تیار شدہ اشیا اور کپڑے کی مقامی سپلائی پر سیلزٹیکس بڑھا کر 17فیصد کر دیا گیا ، روئی پر سیلز ٹیکس استثنیٰ ختم کر کے 10فیصد سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز ہے، سٹیل کے راڈ ، بلٹ اور دیگر اشیاء پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 17فیصد کر دی گئی ، سی این جی پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا، ریجن ون کیلئے سی این جی 64.80روپے فی کلو بڑھا کر 74.04روپے فی کلوگرام اور ریجن ٹو کیلئے57.69وپے فی کلوگرام سے بڑھا کر 69.57روپے فی کلوگرام کر دی گئی ، سگریٹ کے تین سلیب ختم کر کے دو کر دیئے گئے اور دوسرے اور تیسرے سلیب کو ضم کر دیا گیا ، اب پہلے سلیب پر فی ایک ہزار سگریٹ کی سٹیکس پر ٹیکس 4500روپے سے بڑھا کر 5200روپے کر دیا گیا اور دوسرے اور تیسرے سلیب کوضم کر کے دوسرے سلیب میں فی ایک ہزار سٹیکس پر 1650روپے ٹیکس عائد کر دیا گیا ، سگریٹ پر ٹیکس سے 147ارب روپے کا ریونیو حاصل کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، درآمدات میں 1600سے زائد خام درآمدی مال کو ڈیوٹی سے استثنیٰ دینے کی تجویز دی گئی ہے، اس سے ریونیو میں 20ارب روپے کی کمی ہوگی ، ٹیکسٹائل کی مشینری کے پارٹس اور آلات پر ڈیوٹی سے استثنیٰ دے دیا گیا ،لچکدار دھاگے اور غیر بنے کپڑے پر ڈیوٹی میں کمی کر دی گئی ، کاغذ میں استعمال ہونیوالے خام مال برادہ اور کاغذ کے اسکریپ کی درآمد پر ڈیوٹی سے استثنیٰ دے دیا گیا ، اور مختلف اقسام کے کاغذ پر ڈیوٹی 20فیصد سےکم کر کے 16فیصد کر دی گئی ، لکڑی کے فرنیچر میں استعمال ہونیوالی اشیاء کی درآمد پرعائد تین فیصد ڈیوٹی صفر کر دی گئی ، لکڑی کے مصنوعی پینلز پر ڈیوٹی 11فیصد سے کم کر کے تین فیصد کر دی گئی، ریزر کے برآمد کنندگان کیلئےسٹیل کی پٹیوں پر ڈیوٹی 11فیصد سے کم کر کے5فیصد کر دی گئی ، گھر یلواشیاء کی صنعت ، پرنٹنگ پلیٹ کی صنعت ، سولر پینلز کے اسمبلرز اور کیمیکل انڈسٹری کی لاگت میں کمی کیلئے ڈیوٹی میں کمی کر دی گئی ، ایلومینیم کی پلیٹوں ، دھاتی سطح والی اشیاء اور ایسٹک ایسڈ پر ڈیوٹی میں کمی کی تجویز دی گئی ،تیل صاف کرنیوالے ہائیڈرو کریکر پلانٹس کی تنصیب کیلئے استعمال ہونیوالے پلانٹ اور مشینری پر ڈیوٹی سے استثنیٰ دینے کی تجویز ہے، ٹائر ، وارنش اور خوراک کی تیاری میں استعمال ہونیوالی خوراک پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر نے کی تجویز ہے تاکہ ان کی اسمگلنگ روکی جائے، ادویات کی تیاری میںاستعمال ہونیوالے خام مال کی 19بنیادی اشیاء پر عائد تین فیصد درآمدی ڈیوٹی ختم کر دی گئی ، اینٹوں کے بھٹوں پرعائد 17فیصد سیلز ٹیکس کم کر نے کی تجویز دی گئی اورجگہ اور استعداد کے حساب سے سیلز ٹیکس عائد کی جائیگا ،ریستورانوں اور بیکری میں فراہم کی جانیوالی اشیاء پر عائد سیلز ٹیکس 17فیصد سے کم کر کے 7.5فیصد کر دیا گیا ، فاٹا اور پاٹا کے علاقوں کیلئے صنعتی خام مال اور پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر بھی ٹیکس استثنیٰ دے دیا گیا ، ان علاقوںمیں گھریلو اور کاروباری صارفین اور 31مئی 2018سے پہلے قائم ہونیوالی صنتعوں کو بجلی کی فراہمی پر سیلز ٹیکس استثنیٰ دے دیا گیا اس کا اطلاق سٹیل ملوں اور گھی ملوں پر نہیں ہوگا، موبائل فون کی درآمد پر عائد تین فیصد ویلیوایڈیشن ٹیکس ختم کر دیا گیا ، پیٹرولیم منصوعات جیسے کہ فرنس آئل کی درآمد پرعائد ویلیو ایڈ ایشن ٹیکس پر بھی استثنیٰ دے دیا گیا ،انکم ٹیکس کےتحت چھ لاکھ روپے سے زائد والے تنخواہ دار افرادکیلئے 11ٹیکس سلیب پر پانچ فیصد سے35فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ، چار لاکھ روپے سے زائد آمدن والے غیر تنخواہ دار افرادکیلئے آمدن پر پانچ فیصد سے 35؍ فیصد ٹیکس کے ساتھ 8سلیب متعارف کرائے گئےہیں، کمپنیوں کیلئےاگلے دوسال کیلئے ٹیکس ریٹ کو دوسال کیلئے 29فیصد کی شرح سے فکس کر دیا گیا ، بجٹ میں ٹیکس کریڈیٹ کو مشینری کی قیمت خرید کے 10؍ فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کرنے اور اس کے بعد اس ٹیکس کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بجٹ میں 300 یونٹ تک استعمال کرنے والے بجلی صارفین کو 200ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے، بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے آئندہ حکومت سٹیٹ بنک سے قرض نہیں لے گی، مہنگائی کی شرح کا وسط مدتی ہدف پانچ سے سات فیصد مقرر کیا گیا ہے، آئندہ مالی سال وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6717ارب روپے لگایا گیا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 19فیصد زیادہ ہے، وفاقی ریونیو میں سے 3255ارب روپے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو دیئے جائیں گے جو موجودہ سال کے 2465ارب روپے کےمقابلے میں 32فیصد زیادہ ہیں ، آئندہ مالی سال نیٹ وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3462ارب روپے لگایا گیا ہے جو رواں برس کے مقابلے میں 13فیصد زیادہ ہے، صوبائی سرپلس کا تخمینہ 423ارب ر وپےہے ، خیبر پختونخوا میں ضم ہونیوالے قبائلی اضلاع کے جاری اور نئے ترقیاتی اخراجات کیلئے 152ارب روپے فراہم کیے جائیں گے ، وزیر مملکت حما د اظہر نے کہا کہ بجلی کا گردشی قرضہ 1600ارب روپے ہےگیس کا گردشی قرضہ 150ارب روپے ہے بجلی اور گیس کے ٹیرف پر نظرثانی کی گئی ہے بجلی چوری اور بل ادا نہ کرنیوالوں کیخلاف مہم شروع کی گئی ہے، گزشتہ چھ ماہ میں 80ارب روپے کی وصولیاں کی گئیں ، 80فیصد فیڈرز پر لوڈشیڈنگ ختم کر دی گئی ، گردشی قرضے میں 38ارب روپے کے ماہانہ اضافہ کم ہو کر 24ارب روپے پر آگیا جو اگلے 24ماہ میں مکمل ختم کر دیا جائیگا ، زرعی ٹیوب ویلوں پر چھ روپے85پیسے فی یونٹ کے حساب سے رعایتی نرخ دیئے جائیں گے ، بلوچستان کے کسانوں کے مشترکہ سکیم شروع کی گئی ہے ، چھوٹے کسانوں کی فصل خراب ہونے کی صورت میں تلافی کیلئے انشورنس سکیم شروع کی جائیگی ، اس کیلئےبجٹ میں اڑھائی ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے، زراعت کی ترقی کیلئے پانی سے زیادہ پیداوارکیلئے پانی کا انفراسٹرکچر بنایا جائیگا ، جس سے پانی کی کفایت کے منصوبے بھی شامل ہونگے ، اس کیلئے 218ارب روپےکے منصوبوں پر کام ہوگا، گندم ، چاول ، گنے اور کپاس کی فی ایکڑپیداوار میں اضافے کیلئے 44؍ ارب روپے فراہم کیے جائیں گے ،ٹرائوٹ مچھلی کی فارمنگ کے منصوبوں کیلئے 9.3ارب روپےفراہم کیے جائیں گے۔ وزیر مملکت حما داظہرنے بجٹ تقریر میں کہا کہ بیرونی خسارے کو کم کیا جائیگا ، ٹیکس ریفنڈ کے نظام کو بہتر کیا جائیگا ،برآمدکنندگان کی سپورٹ کیلئے بجلی اور گیس سستی فراہم کی جائے گی، آزاد تجارتی معاہدوں کو دوبارہ دیکھا جائے گا، مالیاتی خسارےکو کم کرنےکیلئے بنیادی خسارے کو 0.6فیصد تک لایا جائے گا ، سول وعسکری حکام نے اپنے اخرجات میں مثالی کمی کا اعلان کیا ہے، پاکستا ن میں 20لاکھ افراد انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں جن میں چھ لاکھ ملازمین ہیں، 380کمپنیاں کل ٹیکس کا 80فیصد ادا کرتی ہیں ، کل تین لاکھ 39ہزار بجلی وگیس کے کنکشن ہیں اور صرف چالیس ہزارٹیکس رجسٹرڈ ہیں ، 31لاکھ کمرشل صارفین میں سے صرف 14لاکھ ٹیکس دیتے ہیں، بنکوں کے مجموعی پانچ کروڑ اکائونٹس ہیں صرف 10فیصد ٹیکس دیتے ہیں ، ایس ای سی پی میں ایک لاکھ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں50فیصد ٹیکس دیتی ہیں ، بہت سے پیسے والے لوگ ٹیکس میں حصہ نہیں لیتے ، نئے پاکستان میں اس سوچ کو بدلنا ہوگا، جب تک ٹیکس نظام بہتر نہیں کریں گے پاکستان ترقی نہیں کرسکتا ، سول اور عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی ،سول حکومت کے اخراجات میں پانچ فیصد کمی کی جارہی ہے ، عسکری بجٹ موجودہ سطح 1150ارب روپے پر مستحکم رہے گا، وزیر مملکت نے کہا کہ ہمیں معاشی وراثت میں مجموعی قرضہ اور ادائیگیاں 3100 ارب روپے ملیں۔ ان میں تقریباً 97 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات اور ادائیگیاں تھیں۔ بہت سے کمرشل قرضے زیادہ سود پر لئے گئے تھے۔ گزشتہ دو سال کے دوران سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے گر کر دس ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے تھے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح 20 ارب ڈالر جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ پانچ سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ مالیاتی خسارہ 2260 ارب روپے کی خطرناک حد تک پہنچ گیا تھا۔ اتنا بڑا خسارہ الیکشن کے سال میں مالیاتی بدنظمی کی وجہ سے ہوا۔ بجلی کے نظام کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا اور 38 ارب روپے ماہانہ کی شرح سے بڑھ رہا تھا۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی 1300 ارب روپے کے مجموعی خسارے سے زائد تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی روپے کی قدر بلند رکھنے کیلئے اربوں ڈالر جھونک دیئے گئے۔ اس مہنگی حکمت عملی سے برآمدات کو نقصان پہنچا۔ درآمدات کو سبسڈی ملی اور معیشت کو نقصان ہوا۔ اس کی وجہ سے دسمبر 2017ءمیں روپیہ گرنے لگا۔ انہوں نے بتایا کہ چیزوں کی قیمتوں پر دباؤ بڑھ رہا تھا اور افراط زر چھ فیصد کو چھو رہی تھی۔ ہماری حکومت نے مناسب اقدامات سے صورتحال کو قابو میں لانے کیلئے حکمت عملی اپنائی۔ فوری خطرہ سے نمٹنے اور معاشی استحکام کیلئے اقدامات کئے۔ درآمدات پر ڈیوٹی میں اضافے سے جولائی سے اپریل کے دوران درآمدات کم ہو کر 45 ارب ہوگئیں اور تجارتی خسارہ چار ارب ڈالر کم ہوا۔ وزیر اعظم کے سمندر پار پاکستانیوں کو اعتماد دلانے سے ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ ہوا۔ بجلی کے گردشی قرضوں کو 26 ارب روپے ماہانہ پر لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ چین‘ سعودی عرب ‘ یو اے ای سے 9 ارب 20 کروڑ ڈالر کی امداد ملی جس پر ان دوست ممالک کے شکرگزار ہیں۔چین سے 313 اشیاءکی ڈیوٹی فری برآمد کا معاہدہ کیا گیا۔